13 بن یمین کے دروازے تک پہنچ گیا تو پہرے داروں کا ایک افسر اُسے پکڑ کر کہنے لگا، ”تم بھگوڑے ہو! تم بابل کی فوج کے پاس جانا چاہتے ہو!“ افسر کا نام اِریاہ بن سلمیاہ بن حننیاہ تھا۔
13 لیکن جَب یرمیاہؔ نبی بِنیامین کے پھاٹک پر پہُنچا تو اُسے وہاں پہرےداروں کے سردار شلمیہؔ بِن یرِیاہؔ بِن حننیاہؔ نے یہ کہہ کر گِرفتار کر لیا، ”تُم فرار ہوکر کَسدیوں کے پاس جا رہے ہو۔“
13 اور جب وہ بِنیمِین کے پھاٹک پر پُہنچا تو وہاں پہرے والوں کا داروغہ تھا جِس کا نام اِرّیاہ بِن سلمیاؔہ بِن حننیاؔہ تھا اور اُس نے یَرمِیاؔہ نبی کو پکڑا اور کہا کہ تُو کسدیوں کی طرف بھاگا جاتا ہے۔
13 बिनयमीन के दरवाज़े तक पहुँच गया तो पहरेदारों का एक अफ़सर उसे पकड़कर कहने लगा, “तुम भगोड़े हो! तुम बाबल की फ़ौज के पास जाना चाहते हो!” अफ़सर का नाम इरियाह बिन सलमियाह बिन हननियाह था।
پورا ملک شمالی شہر جِبع سے لے کر یروشلم کے جنوب میں واقع شہر رِمّون تک کھلا میدان بن جائے گا۔ صرف یروشلم اپنی ہی اونچی جگہ پر رہے گا۔ اُس کی پرانی حدود بھی قائم رہیں گی یعنی بن یمین کے دروازے سے لے کر پرانے دروازے اور کونے کے دروازے تک، پھر حنن ایل کے بُرج سے لے کر اُس جگہ تک جہاں شاہی مَے بنائی جاتی ہے۔
لیکن ایتھوپیا کے ایک درباری بنام عبدمَلِک کو پتا چلا کہ یرمیاہ کے ساتھ کیا کچھ کیا جا رہا ہے۔ جب بادشاہ شہر کے دروازے بنام بن یمین میں کچہری لگائے بیٹھا تھا
وہاں وہ اُس پر الزام لگا کر کہنے لگے، ”ہم نے معلوم کیا ہے کہ یہ آدمی ہماری قوم کو گم راہ کر رہا ہے۔ یہ شہنشاہ کو ٹیکس دینے سے منع کرتا اور دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں مسیح اور بادشاہ ہوں۔“
اگر تم تلوار، کال یا وبا سے مرنا چاہو تو اِس شہر میں رہو۔ لیکن اگر تم اپنی جان کو بچانا چاہو تو شہر سے نکل کر اپنے آپ کو بابل کی محاصرہ کرنے والی فوج کے حوالے کرو۔ جو کوئی یہ کرے اُس کی جان چھوٹ جائے گی۔‘
متعدد لوگوں کی سرگوشیاں میرے کانوں تک پہنچتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”چاروں طرف دہشت ہی دہشت؟ یہ کیا کہہ رہا ہے؟ اُس کی رپٹ لکھواؤ! آؤ، ہم اُس کی رپورٹ کریں۔“ میرے تمام نام نہاد دوست اِس انتظار میں ہیں کہ مَیں پھسل جاؤں۔ وہ کہتے ہیں، ”شاید وہ دھوکا کھا کر پھنس جائے اور ہم اُس پر غالب آ کر اُس سے انتقام لے سکیں۔“
یہ سن کر لوگ آپس میں کہنے لگے، ”آؤ، ہم یرمیاہ کے خلاف منصوبے باندھیں، کیونکہ اُس کی باتیں صحیح نہیں ہیں۔ نہ امام شریعت کی ہدایت سے، نہ دانش مند اچھے مشوروں سے، اور نہ نبی اللہ کے کلام سے محروم ہو جائے گا۔ آؤ، ہم زبانی اُس پر حملہ کریں اور اُس کی باتوں پر دھیان نہ دیں، خواہ وہ کچھ بھی کیوں نہ کہے۔“
ہم اپنی خدمت جاری رکھتے ہیں، چاہے لوگ ہماری عزت کریں چاہے بےعزتی، چاہے وہ ہماری بُری رپورٹ دیں چاہے اچھی۔ اگرچہ ہماری خدمت سچی ہے، لیکن لوگ ہمیں دغاباز قرار دیتے ہیں۔
یہ سن کر بیت ایل کے امام اَمَصیاہ نے اسرائیل کے بادشاہ یرُبعام کو اطلاع دی، ”عاموس اسرائیل کے درمیان ہی آپ کے خلاف سازشیں کر رہا ہے! ملک اُس کے پیغام برداشت نہیں کر سکتا،
تب مذکورہ افسروں نے بادشاہ سے کہا، ”اِس آدمی کو سزائے موت دینی چاہئے، کیونکہ یہ شہر میں بچے ہوئے فوجیوں اور باقی تمام لوگوں کو ایسی باتیں بتا رہا ہے جن سے وہ ہمت ہار گئے ہیں۔ یہ آدمی قوم کی بہبودی نہیں چاہتا بلکہ اُسے مصیبت میں ڈالنے پر تُلا رہتا ہے۔“
شاہی محل میں میرمنشی کے دفتر میں چلا گیا۔ وہاں تمام سرکاری افسر بیٹھے تھے یعنی اِلی سمع میرمنشی، دِلایاہ بن سمعیاہ، اِلناتن بن عکبور، جمریاہ بن سافن، صِدقیاہ بن حننیاہ اور باقی تمام ملازم۔
کیونکہ رب الافواج جو اسرائیل کا خدا ہے فرماتا ہے کہ مَیں نے لوہے کا جوا اِن تمام قوموں پر رکھ دیا ہے تاکہ وہ نبوکدنضر کی خدمت کریں۔ اور نہ صرف یہ اُس کی خدمت کریں گے بلکہ مَیں جنگلی جانوروں کو بھی اُس کے ہاتھ میں کر دوں گا۔“